Thursday, November 12, 2020

قیادت کا چناو اور عوام کا امتحان

 

قیادت کا چناو اور عوام کا امتحان
شیربازعلی خان 

قوموں کی عروج و زوال میں لیڈرشپ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ بغیر لیڈرشپ کے قومیں بے سمت منزل کی طرف رواں ایک  بھیڑ کی ما نند ہو تی ہیں اور قیادت کی خوبیوں سے عاری لیڈرشپ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو وطنِ عزیز میں ایک عرصے سے جاری گونگوں مسائل کی ایک بڑی وجہ سمجھ آتی  ہے۔

پاکستان کو کافی عرصے کے بعد عمران خان کے صورت میں ایک لیڈر ملا ہے جو مخلصانہ طور پر منزل کی سمت درست کرنے اور گھمبیر مسائل کا حل نکالنے کے لئیے سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ کاوشیں ماضی کے مقتدر جماعتوں کے لئیے باعثِ پریشانی ہیں اور یہ پریشانی ان سب  کومفادات بچاو” ایجنڈا کے تحت عمران خان مخالفت میں ایک کر دیا ہے جس کا اظہار مختلف طریقوں سے سامنے آرہا ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں شدّت کے امکانات ہیں۔

اس پسِ منظر میں اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکت کہ اس وقت ملکی سطح پر سیاسی لیڈرز میں عمران خان کا متبادل کوئی نہیں. ماضی میں حکومتیں بنانےوالی سیاسی جماعتیں اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہیں، ان کی پرانی قیادت یا تو سزائیں بھگتنے میں یا پھر کیسوں کا سامنے کرنے میں مصروف ہے، اور ان کی نوجوان قیادت صرف پدرم سلطان بود کی وجہ سے  لیڈر بنے ہیں، اور یہ وصف ان کو پارٹی قیادت تو دے سکتی ہے مگر قومی لیڈر کا رتبہ نہیں۔  دوسرا یہ کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی کسی کے کمی یا خامی کی تلافی کے لئیے اگرایک، دو یا تین مواقعے دئیے جائیں  لیکن اس کے باوجود بھی وہ ناکام رہیں  اور بضد رہیں  کہ  ان کو اور مواقعے دئیے جائیں اور ان کے اولاد کو ان کے بعد لیڈر تسلیم کیا جائے۔ اس کا جواب ںا میں ہوںا ملک و قوم کے لئیے بہتر ہے نہ کہ ہاں میں ہونا، اگر آگے بڑھنا مقصود ہے۔

ہم سب تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں، نظام میں بہتری، لوگوں کی زندگی میں بہتری، اچھی نظم ونسق، حقداروں کو ان کے حقوق تک رسائی، مفاداتِ عامہ کے معالات میں جوابدھی وغیرہ, یہ سب سارے لوگوں کے مشترکہ خواب ہیں اور ایسی تبدیلی جو یہ ممکن بنائے, ہر جگہ کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے اس تبدیلی کے لیئے جدوجہد کی ہے اورایک اہم سنگِ میل عبور کیا ہے. لیکن اب بھی ان کے سامنے بے شمار مسائل ہیں۔ کیا ان مسائل کی وجہ سے تبدیلی کے سفر کو ریورس کر کے پرانے ںطام  کے حامیوں کی طرف دیکھا جائے اور پھر ان کو عوام کی محرومیوں کے قیمت پر نسل در نسل حکومت کا موقع دیا جائے اور وہ اتنے مضبوط ہوں کہ نظام ان کے آگے بے بس ہو؟ عوام کا انتخاب راستہ متعین کریگا۔

=============================================================== 

Sunday, September 27, 2020

How to save your heart?

 How to save your heart? 💓

1. should: • never expect • never demand • never assume 2. know: • your limits • where you stand • your role 3. don't: • get affected • get jealous • get paranoid 4. just: • go with the flow and be happy • stay positive

(Health & Wellness)

Tuesday, August 25, 2020

کمال پورہ کے کمالات - قسط نمبر ۳: کچھ تذکرہ ںقل و حمل اور آمدورفت کا

                              

 کمال پورہ کے کمالات

قسط نمبر ۳: کچھ تذکرہ ںقل و حمل اور آمدورفت کا

اشیربازعلی خان

سڑک چھوٹی ہو یا بڑی، کچّی ہو یا پکی، یا پھر کچّی پکّی، اس وقت تک استعمال کرنے والوں کے لیئے محفوظ ہوتی ہے جب تک نقل و حمل اور آمدورفت سے متعلق قوانین اور اصول و ضوابط پر عمل کیا جائے اور سڑک کا استعمال کرنے والے اس بات کے پابند ہوں کہ وہ نہ صرف اس کو اپنے لیئے محفوظ بنایئں گے بلکہ دوسروں کے لیٗے بھی محفوظ راستہ فراہم کریں گے۔ کمال پورہ کے باسی سڑک  کا استعمال اپنا استحقاق سمجھتے ہیں مگر دوسروں کو یہ حق دینے میں کافی بخیل واقع ہوئے ہیں جس سے نہ صرف دوسروں کی زندگی اجیرن رہتی ہے بلکہ ان کی اپنی زندگی بھی خطرات میں گھری رہتی ہے۔ ہارن بجا نا تو جیسے کوئی یہاں کے سڑکوں پر چلنے والوں سے سیکھے، جہاں چاہیں، جب بھی چاہیں ہارن پر ہاتھ رکھ لیا، اور بھدی اواز پورے علاقے میں نہ سنائی دے تو جیسے بجانے والے کو چین نہ آے۔ موقع دیکھیں نہ محل، آو دیکھیں نہ تاو، بس دوسروں کی سماعتوں کو چیرنے والی آوازیں نکال کر اپنے لیئے راستہ بنانے کے کو شش میں مگن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ناگوار آوازیں نہ جانے کتنوں کے لیئے کوفت کا باعث بنتی ہیں۔ کہیں کسی پیدل چلنے والے کو راستہ دینے گاڑی آہستہ کرنا، یا ہارن نہ بجانا گویا گوارا ہی نہیں۔ بستیوں میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ آبادیوں اور مارکیٹوں کے قریب یا درمیان سڑکوں پر گاڑیوں کی رفتار آ ہستہ رکھی جاتی ہے تاکہ لوگ اور بلخصوص بچّے، خواتین، بوڑھے اور معزور وغیرہ کو کوئی پریشانی نہ ہو مگر کمال پورہ میں تو جیسے سڑک پر پیدل چلنے والوں کا حق نہیں، سڑک پار کرنے والے تپتی دھوپ اور شدید سردیوں میں گاڑیوں والوں کے رحم و کرم  پر ہوتے ہیں اور طویل انتظار کے بعد ہی سڑک پار کر لیتے ہیں، اور کبھی کبھی سڑک پار کرتے ہوئے آنے جانے والی گاڑیوں کے ناخداوٗں سے گالی گلوچ بھی سن لیتے ہیں۔

کمال پورہ کے پبلک ٹرنسپورٹیشن کا نظام بھی اپنی انفرادی کمالات رکھتی ہے۔ نقل و حمل اور آمد و رفت کے مروّجہ اصول و ضوابط  تو جیسے یہاں پر نافذلعمل نہیں۔  پبلک ٹرانسپورٹیشن کا استعمال تھوڑا معیوب اورمعتوب بھی سمجھا جاتا ہے اور اس امیج کے پیچھے خود پبلک ٹرانسپورٹیشن کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایئں، دیکھیں کس طرح۔ کمال پورہ کے مختلف علاقوں میں نقل و حمل کے لیئے ٹکسیوں اور سوزکیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوردراز علاقوں کے لیئے زیادہ تر ویگنوں، چھوٹی بسوں اور جیپوں کا چلنا ہے۔ ان سب میں یہ عمل مشترک ہے کہ وقت کی پابندی لازمی نہیں، گاڑیوں کے اوپر جتنا لوڈ آ سکے، ڈال دیا جاتا ہے، مسافروں کے سیٹوں کے نیچے بھی سامان رکھ دیا جاتا ہے،  سیٹیں تنگ ہوتی ہیں اور پھر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گاڑیاں پوری طرح بھر جا ئیں اور پھر راستے میں جہاں بھی مسافر ملیں ان کو گاڑی میں جگہ دی جائے۔ اگر گاڑی کے اندر جگہ نہ ملے تو چھتوں پر بٹھا دیا جاتا ہے جہاں پہلے سے موجود مسافروں کا سامان ہوتا ہے۔ جن مسافروں کی منزل گاڑیوں کی آخری اسٹیشن ہوں ان کو صبرآزما سفر سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی اچھی قسم کے کپڑے اور جوتے پہنیں ہوں تو منزل تک پہنچنے تک ان کا کباڑہ ہوجاتا ہے، اور سامان بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں رہتا۔ اگر کوئی مسافر گاڑی ڈرائیور سے کسی معاملے کی بابت شکایت کرے تو صاف جواب ملتا ہے کہ اپنے لئیے گاڑی بک کر لیتے یا اپنی گاڑی رکھ لیتے۔ اس طنز سے بھرپور جواب کے ملنے کے بعد مسافر نے مزید کیا سننا ہے تو لہٰذا خود کو ڈرئیور اور گاڑی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے.  سڑک پر ڈرائیوروں نے یہ نہیں دیکھنا ہو تا ہے کہ سڑک یک رخی ہے یا دورخی،  کہاں آہستہ چلنا ہے، کہاں اورٹیک کرنا ہے، رفتار کیا رکھنا ہے، کہاں ہارن بجانا ہے، کہاں دوسرے گاڑیوں کو جگہ دینا ہے، اور کہاں لائیٹس دھیمی رکھنی ہیں۔ انہیں اگر دیکھنا ہے تو صرف یہ کہ ان کے لئیے کیا اچھا ہے، اپنے لئیے اچھے کی تلاش میں وہ کتنوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اس فکر سے آزاد ہیں ۔

کمال پورہ میں ذاتی گاڑی کا ہونا معاشرے میں آپ کے مقام میں بہتری کا ذرئعیہ سمجھا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ گاڑیاں خریدنے کے رجحاں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ گاڑیاں باسانی دستیاب ہیں۔ ایسی گاڑیاں جو دوسری جگہوں پر کافی مہنگی ہوتی ہیں اور عام طور پر غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں، کمال پورہ میں سستے داموں میسّر ہیں۔ ساتھ ہی اگر قانون کی فکر نہ ہو، تربیت یافتہ ہونے نہ ہونے سے متعلق کوئی پوچھ کچھ نہ ہو، گاڑی ٹھیک حالت میں رکھنے سے متعلق  کوئی ضابطہٗ عمل نہ ہو، ایسے میں گاڑی رکھنا نسبتاٌ آسان ہو جاتا ہے۔ گاڑیوں کی بہتات کے ساتھ ساتھ امدورفت کے لئیے موٹر سائیکلز کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ جن کے پاس گاڑیاں ہیں ان کے پاس موٹر سائیکلز بھی ہیں، اور جن کے پاس گاڑیاں نہیں ہیں ان کے پاس متبادل کے طور پر موٹر سائیکلز موجود ہیں، اور کچھ گھروں میں تو ان کے تعداد ایک سے زائد ہے۔ نوجوان اور خاص کر اٹھارہ سال سے کم عمر بچّے موٹر سائیکلز پر گھر سے باہر نکلتے ہی جیسے کسی ریس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کم عمری اور پھر آمدورفت کے اصول و ضوابط سے نا آشنا، تیزرفتاری کے سنگین نتائج سے انجان، گرم خون اور کھاوے کا جنون، جب موٹر سائیکلز لیکر روڈ پر نکلتے ہیں تو جیسے ان کو کچھ اور نظر نہیں آتا، کہیں ضرورت سے زیادہ اسپیڈ پکڑتے ہیں، کہیں ون ویلنگ کرتے ہیں، کہیں گنجان آمدورفت میں سے راستہ بناتے ہیں، کہیں پیدل چلنے والوں کے راستے پر چڑھتے ہیں، اور یوں نہ صرف اپنے لئیے خطرہ بنتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

 کمال پورہ میں پکّی سڑکیں کچّی سڑکوں سے زیادہ تکلیف دہ ہیں کیونکہ پکّی سڑکوں میں اتنی گڑھے اور دراڈیں پڑ چکی ہیں جن سے گزر کر اچھا خاصا ادمی بھی ہلکان ہو جاتا ہے۔ بنانے والے ان پکّی سڑکوں کو اس طرح بناتے ہیں کہ ان کو وقفے وقفے سے دوبارہ بنانے کی ضرورت پڑتی رہے تاکہ ان کا کام بھی چلتا رہے۔ سڑکوں کے آس پاس کے سارے ندّی نالوں کا پانی کے بہاوٗکا رخ سڑکوں کی طرف ہوتا ہے، اور ناقص یا ناکافی مٹیریل سے بنے عارضی پکّی سڑکیں ان ریلوں کی نذر ہو جاتی  ہیں، بارش اور سیلابی ریلے بھی اس نقصان میں اپنا حصّہ ڈالتے ہیں۔ سڑکوں پر جہاں جہاں پانی کی گزرگاہیں ہیں وہاں پر سڑک کے نیچے یا اوپر سے بہاو کے لئیے راستہ بنایا جاتا ہے اور اس میں بھی اس بات کا اہتمام موجود رہتا ہے کہ یہ کام سالانہ نہیں تو کم از کم ہر دوسرے یا تیسرے سال میں ضرور کرنا پڑے۔ سڑکوں پر جگہ جگہ دریاوٗں پر بنے پرانے اور نئے آر سی سی اور لکڑی کے پل اپنا کام کر رہے ہیں، تاہم کہنے والے کہتے ہیں کہ ان پلوں میں بھی خراب ہونے کے عمل کو مدّنظر رکھا جاتا ہے۔ کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بعض جگہوں پر پلوں کی تعمیر کے منصوبے بنے، بجٹ بھی مختص ہوا، ٹھیکے دئیے گئے، مگر پل ندارد۔ 

بہت سارے دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے کو بھی کوسا جا سکتا ہے۔
نشمن جل رہا ہے اور اف بھی کر نہیں سکتے 
اگر یہ مہربانی ہے تو پھر بیداد کیا ہوگی
 اسیرانِ قفس آدابِ کلشن ہی بھلا بیٹھے
جو یہ سچ ہے تو ان سے خاطرِصیاد کیا ہوگی
تغافل ہے مسلسل اک تغافل واہ کیا کہنا
قیامت اس سے بڑھ کر اے ستم ایجاد کیا ہو گی
(سیّد اشتیاق اظہر)

=====================================================================

Sunday, August 16, 2020

Great Quotes - 003

 

Great Quotes - 003

 

  • We think sometimes that poverty is only being hungry, naked and homeless. The poverty of being unwanted, unloved and uncared for is the greatest poverty. We must start in our own homes to remedy this kind of poverty. (Mother Theresa)
  • The most beautiful people we have known are those who have known defeat, known suffering, known struggle, known loss, and have found their way out of the depths. These persons have an appreciation, sensitivity, and an understanding of life that fills them with compassion, gentleness, and a deep loving concern. Beautiful people do not just happen. (Elisabeth Kübler-Ross)
  • The world as we have created it is a process of our thinking. It cannot be changed without changing our thinking. (Albert Einstein)
  • Everybody is a genius. But if you judge a fish by its ability to climb a tree, it will live its whole life believing that it is stupid. (Albert Einstein)
  • Everything can be taken from a man but one thing: the last of the human freedoms—to choose one’s attitude in any given set of circumstances, to choose one’s own way. (Viktor Frankl)
  • He who fears he will suffer, already suffers because he fears. (Michel De Montaigne)
  • Success is stumbling from failure to failure with no loss of enthusiasm. (Winston Churchill)
  • When one door of happiness closes, another opens, but often we look so long at the closed door that we do not see the one that has been opened for us. (Helen Keller)
  • The only way that we can live is if we grow. The only way we can grow is if we change. The only way we can change is if we learn. The only way we can learn is if we are exposed. And the only way that we are exposed is if we throw ourselves into the open. (C. Joybell)
  • If you don’t like something, change it. If you can’t change it, change the way you think about it. (Mary Engelbreit)
  • A life spent making mistakes is not only more honourable, but more useful than a life spent doing nothing. (George Bernhard Shaw)
  • Time is too slow for those who wait, too swift for those who fear, too long for those who grieve, too short for those who rejoice, but for those who love, time is eternity. (Henry van Dyke)
  • Most people do not listen with the intent to understand; they listen with the intent to reply. (Stephen Covey)
  • Challenges is what makes life interesting and overcoming them is what makes life meaningful. (Joshua J. Marine)
  • Life is never made unbearable by circumstances, but only by lack of meaning and purpose. (Viktor Frankl)
  • A mind that is stretched by a new experience can never go back to its old dimensions. (Oliver Wendell Holmes)

Wednesday, August 12, 2020

کمال پورہ کے کمالات- قسط نمبر ۲: قانون کی پابندی

کمال پورہ کے کمالات

قسط نمبر ۲قانون کی پابندی

شیربازعلی خان

قانون کی عملداری اور قانون پر عمل درآمد کی ایسی انہونی مثالیں کمال پورہ میں موجود ہیں کہ قانون خود بھی حیران و پریشان عملداری کا منہ تکتے رہ جاتا ہے۔ دوسرے معاشروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ قانون بس قانون ہے اور اطلاق کے معاملے میں نہ اونچ دیکھنا ہے نہ نیچ.  قانون کے دائرے میں رہ کر ہی سب کا بھلا اور سب کا سکوں ہے اور یہ کہ قانون کی پابندی نہ کرنا جرم ہے۔ جرم نہ صرف قابلِ سزا ہے بلکہ معاشرے میں ناپسندیدہ عمل بھی ہے. ان معاشروں میں قانون کی پابندی کی وجہ صرف یہ نہیں کہ قانون سے انحراف قابلِ جرم ہے بلکہ لوگوں کونہ صرف اپنے ذمہ داریوں اور حقوق کا احساس ہے بلکہ دوسروں کے حقوق کا بھی ادراک ہے۔ جہاں ذمہ داریوں اور حقوق کا احساس موجود ہووہاں قانون کی پابندی لوگوں کی عادات کا حصّہ بن جاتا ہے جس کا مظاہرہ روزمرّہ کے انفرادی معاملات سے لیکر اجتماعی معاملات تک ہر جگہ نظر آتا ہے۔

 قانون پر عملدرآمد کے لحاظ سے کمال پورہ کے ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ اس بستی کے باسی قانون پر عمل کو کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں۔ قانون شکنی کو بہادری، قانون شکن کو بہادر اور بڑے قانون شکن کو بڑے بہادر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بہادر اور بڑے بہادر کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ لوگ ان کے آداب بجالاتے ہیں اور اپنے چھوٹے موٹے قانون شکنی کے کاموں میں ان کی حمایت کو ضروری سمجھتے ہیں۔

ایسے حالات میں قانون کب تک عملداری کی فکر میں نالاں رہتا، لہٰذا اس نے بھی لوگوں کے رنگ میں رنگنا سیکھ لیا ۔ اس سللے میں اہم قدم کے طور پر قانون نے اندھا ہونے کا فیصلہ ترک کرکے نظر کا چشمہ لگالیا.  قانون کی افادیت تب تک ہے کب تک اس کا اندھاپن برقرار رہے، جونہی قانون دیکھنا شروع کرتا ہے معاشرہ اندھاپن کی طرف چلا جاتا ہے۔  پھر وہی ہوتا ہے جس کا ڈر رہتا ہے۔ ۔ 

نظر کا چشمہ لگانے سے قانون کو تین طرح کی صورتحال نظر آئے۔ ایک صورتحال یہ تھی کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو قانون سے بالاتر تھے، ان لوگوں کے معاملے میں قانون نے خود کو قابلِ عمل سمجھنا چھوڑ دیا۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جن کو قانون سے بالاتر افراد کے حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی، لہٰذا ان کے معاملے میں قانون کو بیچ کا راستہ نکالنا تھا یعنی کبھی ان کی مانو، اور کبھی اپنا منواوٗ۔ تیسرے وہ لوگ تھے جو نہ خود طاقتور اور قانون سے بالاتر تھے اور نہ ہی ان کو قانون سے بالاتر افراد کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہی وہ لوگ تھے جن پر قانون کا اطلاق ہونا تھا اور قانون نے اپنے نشانے کو ٹھیک طرح سے پہچان لیا ۔

ان تمام معاملات میں قانون کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ اسے بنانے والے بھی وہی لوگ ہیں جو اس سے بالاتر ہیں اور عافیت اسی میں ہے کہ بالاتر سے نہ الجھا جائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ مسلّہ بھی درپیش رہا کہ قانون کا مقصد تو یکساں نفاذ ہے، اور ایسے جال کے طور پر کام کرنا ہے جو کہ اپنے دائرہٗ اختیار کے طول و عرض میں یکساں بچھے۔   اگر یکساں نہ رہے تو جنگل کا قانون کہلائے گا۔ اس مرحلے پر جوںاتھن سِویفٹ کا تعریفِ قانون معاون ثابت ہوا جس کے مطابق قانون مکڑی کے جال کی طرح ہے جس میں چھوٹے کیڑے مکوڑے پھس جاتے ہیں،جبکہ بڑے کیڑے اس کو توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ چنانچہ کمال پورہ میں اس تعریف کو رائج الوقت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

===================================================================== 

ایک آرزو

  ایک آرزو   شیربازعلی خان   دینا میں بہتری کی یہ چھوٹی سی خواہش ملاحظہ ہو ہرایک کی ترجیح وہ پہلی ٹھرے، جو انسانیت کا معاملہ ہو  جہاں سے غر...