کمال پورہ کے کمالات
قسط نمبر ۱: انوکھی برابری
شیربازعلی خان
جہاں فرق نمایاں ہو امیر اور غریب میں، ترقی پسند اور پاسماندہ میں، طاقتور اور کمزور میں، آفیسر اور مزدور میں، پیسے والے اور بغیر پیسے والوں میں، گاڑی رکھنے والوں اور استطاعت نہ رکھنے والوں میں، ظالم اور مطلوم میں، بڑے خاندانی اور چھوٹے خاندانی میں، الغرض ہر طرح کے فرق کی موجودگی میں آ پ کو حیرت ہوگی کہ کمال پورہ میں یہ فرق کچھ معاملات میں بلکل مٹ جاتے ہیں۔ ان معاملات میں یہ تفاوت جیسے سرے سے موجود ہی نہیں۔ جہاں کہیں ان معاملات کی بات ہوتی ہے، فرق ذہنوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ برابری کی ایک حسیں دنیا کا تصوّر ذہن میں ابھرتا ہے۔ شیر اور بکری ایک جگہ پانی پیتے نظر آتے ہیں۔ غربت اور امارت کا ذکر بے معنی دکھائی دیتا ہے. محلوں اور جھونپڑیوں میں رہنے والے ایک ہی معیارزندگی رکھنے والے لگتے ہیں۔ زمیندار اور دہقان ایک ہی پیالی میں کھاتے ہیں۔ پیسوں کی بہتات کے حامل اور روزمرّہ کی اجرت کے متلاشی ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ زندگی کی ہر آسائش سے آراستہ، اور ہر آسائش کو ترسے یکساں مطمئین نظر آتے ہیں۔ حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے اور حقوق کو دبانے والے دونوں ہی خوش رہتے ہیں۔
عدل کے تقاضے کچھ بھول کا شکار سہی، مگر اس کو عدل کے موافق گردانتے ہیں۔ مساوات بھی خود کو اس میں عملی شکل میں دیکھتی ہے۔ ہے۔ یکسانیت خود کو ثابت کرنے کے لیئے کسی دوسری مثال کا سہارا نہیں لیتی۔ یکجہتی اپنے ہونے پرناز کرتی ہے۔ حکومتِ وقت خوش نظر آتی ہے۔ حزبِ اختلاف اس معاملے پر اختلاف کو ضروری نہیں سمجھتی۔ دانشور اس پر لب کشائی سے گریزاں رہتے ہیں کہ کہیں اجتماعی مفاد کو نظرِبد نہ لگے۔
کمال پورہ کی بستی سے گزرتے دریا اور ندّی نالے اس برابری اور یکسانیت کے گن گاتے گزرتے ہیں۔ یہاں پر چلنے والی ہوائیں اس خطئہ ارض پر رقصاں ہونے پر نازاں رہتی ہیں۔ چشمِ فلک یہی برابری اور یکسانیت ہر جگہ اور ہر انسانی معاملے میں دیکھنے کی چاہت لیئے رہتی ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ وہ اس خطّے کی ایک مقام پر آپس میں ملتے ہیں جس کے باسیوں کے درمیان برابری اور یکسانیت کا وہ عظیم رشتہ ہے جو کہ ان تینوں کی بلندی سے بالاتر ہے۔ سائبیریا سے آنے والے موسمی پرندے جب موسمِ سرما کے آغاز پر دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں تو اپنے ساتھ پوسٹرز میں یہ پیغام لیکر جاتے ہیں کہ دنیا کو اگر کچھ سیکھنا ہے برابری اور یکسانیت سے متعلق، تو یہاں سے سیکھیں۔ یہاں سال کے چاروں موسم بھی اس سعئ لا حاصل میں خود کو مبتلا پاتے ہیں کہ یہاں کی برابری اور یکسانیت سے آواز ملانے اور یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیئے چاروں موسموں میں یکسانیت پیدا کی جایئے مگر قدرت کے نظام کے ہاتھوں وہ ایسا نہیں کر سکتے۔
برابری اور یکسانیت کی شادمانیوں کے چراغوں میں اس وقت پھڑپھڑاہٹ ہوتی ہے جب یہ خیال رہ رہ کر باخبر طبقے کے لیئے پریشانی کا باعث بنتا ہے کہ کل کو اگر کسی وجہ سے گندم کے اوپر سبسڈی ختم ہو جائے تو کیا ہو گا۔ تب معلوم ہوگا کہ وہ برابری نہیں تھی بلکہ نا انصافی تھی سراسر نا انصافی کہ غریب کو بھی وہی سبسڈی دی گئی جو کہ امیر کو دی گئی، اور جب سبسڈی نہیں رہے گی تو امیروں کا کچھ نہیں بگڑے گا اور غریب کہیں کا نہیں رہے گا۔
===============================================================
No comments:
Post a Comment