کمال پورہ کے کمالات
قسط نمبر ۲: قانون کی پابندی
شیربازعلی خان
قانون کی
عملداری اور قانون پر
عمل درآمد کی
ایسی انہونی مثالیں کمال
پورہ میں موجود ہیں
کہ قانون خود
بھی حیران و
پریشان عملداری کا منہ تکتے رہ جاتا ہے۔ دوسرے معاشروں میں تو
یہ ہوتا ہے
کہ قانون بس
قانون ہے اور اطلاق کے معاملے میں نہ اونچ دیکھنا ہے نہ نیچ. قانون کے دائرے
میں رہ کر
ہی سب کا
بھلا اور سب کا
سکوں ہے اور
یہ کہ قانون
کی پابندی نہ
کرنا جرم ہے۔ جرم
نہ صرف قابلِ
سزا ہے بلکہ
معاشرے میں ناپسندیدہ عمل
بھی ہے. ان معاشروں
میں قانون کی
پابندی کی وجہ
صرف یہ نہیں
کہ قانون سے
انحراف قابلِ جرم ہے
بلکہ لوگوں کونہ صرف
اپنے ذمہ داریوں اور
حقوق کا احساس
ہے بلکہ دوسروں
کے حقوق کا
بھی ادراک ہے۔
جہاں ذمہ داریوں اور
حقوق کا احساس
موجود ہووہاں قانون کی
پابندی لوگوں کی عادات
کا حصّہ بن
جاتا ہے جس
کا مظاہرہ روزمرّہ
کے انفرادی معاملات
سے لیکر اجتماعی
معاملات تک ہر
جگہ نظر آتا
ہے۔
قانون
پر عملدرآمد کے
لحاظ سے کمال
پورہ کے ڈھنگ
ہی نرالے ہیں۔
اس بستی کے
باسی قانون پر عمل
کو کمزوری سے
تعبیر کرتے ہیں۔ قانون
شکنی کو بہادری،
قانون شکن کو بہادر
اور بڑے قانون
شکن کو بڑے
بہادر کے طور
پر دیکھا جاتا
ہے۔ بہادر اور
بڑے بہادر کو
یہ اعزاز حاصل
ہوتا ہے کہ
لوگ ان کے آداب
بجالاتے ہیں اور اپنے
چھوٹے موٹے قانون شکنی
کے کاموں میں
ان کی حمایت
کو ضروری سمجھتے
ہیں۔
ایسے حالات میں قانون کب تک عملداری کی فکر میں نالاں رہتا، لہٰذا اس نے بھی لوگوں کے رنگ میں رنگنا سیکھ لیا ۔ اس سللے میں اہم قدم کے طور پر قانون نے اندھا ہونے کا فیصلہ ترک کرکے نظر کا چشمہ لگالیا. قانون کی افادیت تب تک ہے کب تک اس کا اندھاپن برقرار رہے، جونہی قانون دیکھنا شروع کرتا ہے معاشرہ اندھاپن کی طرف چلا جاتا ہے۔ پھر وہی ہوتا ہے جس کا ڈر رہتا ہے۔ ۔
نظر کا
چشمہ لگانے سے قانون
کو تین طرح
کی صورتحال نظر
آئے۔ ایک صورتحال یہ
تھی کہ کچھ
لوگ ایسے تھے
جو قانون سے
بالاتر تھے، ان لوگوں
کے معاملے میں
قانون نے خود
کو قابلِ عمل
سمجھنا چھوڑ دیا۔ دوسرا
طبقہ وہ تھا
جن کو قانون
سے بالاتر افراد
کے حمایت اور
پشت پناہی حاصل
تھی، لہٰذا ان کے
معاملے میں قانون کو
بیچ کا راستہ
نکالنا تھا یعنی کبھی
ان کی مانو،
اور کبھی اپنا
منواوٗ۔ تیسرے وہ لوگ
تھے جو نہ
خود طاقتور اور
قانون سے بالاتر
تھے اور نہ
ہی ان کو
قانون سے بالاتر
افراد کی پشت
پناہی حاصل تھی۔ یہی
وہ لوگ تھے
جن پر قانون
کا اطلاق ہونا
تھا اور قانون
نے اپنے نشانے
کو ٹھیک طرح
سے پہچان لیا
۔
ان تمام معاملات میں قانون کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ اسے بنانے والے بھی وہی لوگ ہیں جو اس سے بالاتر ہیں اور عافیت اسی میں ہے کہ بالاتر سے نہ الجھا جائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ مسلّہ بھی درپیش رہا کہ قانون کا مقصد تو یکساں نفاذ ہے، اور ایسے جال کے طور پر کام کرنا ہے جو کہ اپنے دائرہٗ اختیار کے طول و عرض میں یکساں بچھے۔ اگر یکساں نہ رہے تو جنگل کا قانون کہلائے گا۔ اس مرحلے پر جوںاتھن سِویفٹ کا تعریفِ قانون معاون ثابت ہوا جس کے مطابق قانون مکڑی کے جال کی طرح ہے جس میں چھوٹے کیڑے مکوڑے پھس جاتے ہیں،جبکہ بڑے کیڑے اس کو توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ چنانچہ کمال پورہ میں اس تعریف کو رائج الوقت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
=====================================================================
No comments:
Post a Comment