Tuesday, August 25, 2020

کمال پورہ کے کمالات - قسط نمبر ۳: کچھ تذکرہ ںقل و حمل اور آمدورفت کا

                              

 کمال پورہ کے کمالات

قسط نمبر ۳: کچھ تذکرہ ںقل و حمل اور آمدورفت کا

اشیربازعلی خان

سڑک چھوٹی ہو یا بڑی، کچّی ہو یا پکی، یا پھر کچّی پکّی، اس وقت تک استعمال کرنے والوں کے لیئے محفوظ ہوتی ہے جب تک نقل و حمل اور آمدورفت سے متعلق قوانین اور اصول و ضوابط پر عمل کیا جائے اور سڑک کا استعمال کرنے والے اس بات کے پابند ہوں کہ وہ نہ صرف اس کو اپنے لیئے محفوظ بنایئں گے بلکہ دوسروں کے لیٗے بھی محفوظ راستہ فراہم کریں گے۔ کمال پورہ کے باسی سڑک  کا استعمال اپنا استحقاق سمجھتے ہیں مگر دوسروں کو یہ حق دینے میں کافی بخیل واقع ہوئے ہیں جس سے نہ صرف دوسروں کی زندگی اجیرن رہتی ہے بلکہ ان کی اپنی زندگی بھی خطرات میں گھری رہتی ہے۔ ہارن بجا نا تو جیسے کوئی یہاں کے سڑکوں پر چلنے والوں سے سیکھے، جہاں چاہیں، جب بھی چاہیں ہارن پر ہاتھ رکھ لیا، اور بھدی اواز پورے علاقے میں نہ سنائی دے تو جیسے بجانے والے کو چین نہ آے۔ موقع دیکھیں نہ محل، آو دیکھیں نہ تاو، بس دوسروں کی سماعتوں کو چیرنے والی آوازیں نکال کر اپنے لیئے راستہ بنانے کے کو شش میں مگن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ناگوار آوازیں نہ جانے کتنوں کے لیئے کوفت کا باعث بنتی ہیں۔ کہیں کسی پیدل چلنے والے کو راستہ دینے گاڑی آہستہ کرنا، یا ہارن نہ بجانا گویا گوارا ہی نہیں۔ بستیوں میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ آبادیوں اور مارکیٹوں کے قریب یا درمیان سڑکوں پر گاڑیوں کی رفتار آ ہستہ رکھی جاتی ہے تاکہ لوگ اور بلخصوص بچّے، خواتین، بوڑھے اور معزور وغیرہ کو کوئی پریشانی نہ ہو مگر کمال پورہ میں تو جیسے سڑک پر پیدل چلنے والوں کا حق نہیں، سڑک پار کرنے والے تپتی دھوپ اور شدید سردیوں میں گاڑیوں والوں کے رحم و کرم  پر ہوتے ہیں اور طویل انتظار کے بعد ہی سڑک پار کر لیتے ہیں، اور کبھی کبھی سڑک پار کرتے ہوئے آنے جانے والی گاڑیوں کے ناخداوٗں سے گالی گلوچ بھی سن لیتے ہیں۔

کمال پورہ کے پبلک ٹرنسپورٹیشن کا نظام بھی اپنی انفرادی کمالات رکھتی ہے۔ نقل و حمل اور آمد و رفت کے مروّجہ اصول و ضوابط  تو جیسے یہاں پر نافذلعمل نہیں۔  پبلک ٹرانسپورٹیشن کا استعمال تھوڑا معیوب اورمعتوب بھی سمجھا جاتا ہے اور اس امیج کے پیچھے خود پبلک ٹرانسپورٹیشن کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایئں، دیکھیں کس طرح۔ کمال پورہ کے مختلف علاقوں میں نقل و حمل کے لیئے ٹکسیوں اور سوزکیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوردراز علاقوں کے لیئے زیادہ تر ویگنوں، چھوٹی بسوں اور جیپوں کا چلنا ہے۔ ان سب میں یہ عمل مشترک ہے کہ وقت کی پابندی لازمی نہیں، گاڑیوں کے اوپر جتنا لوڈ آ سکے، ڈال دیا جاتا ہے، مسافروں کے سیٹوں کے نیچے بھی سامان رکھ دیا جاتا ہے،  سیٹیں تنگ ہوتی ہیں اور پھر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گاڑیاں پوری طرح بھر جا ئیں اور پھر راستے میں جہاں بھی مسافر ملیں ان کو گاڑی میں جگہ دی جائے۔ اگر گاڑی کے اندر جگہ نہ ملے تو چھتوں پر بٹھا دیا جاتا ہے جہاں پہلے سے موجود مسافروں کا سامان ہوتا ہے۔ جن مسافروں کی منزل گاڑیوں کی آخری اسٹیشن ہوں ان کو صبرآزما سفر سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی اچھی قسم کے کپڑے اور جوتے پہنیں ہوں تو منزل تک پہنچنے تک ان کا کباڑہ ہوجاتا ہے، اور سامان بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں رہتا۔ اگر کوئی مسافر گاڑی ڈرائیور سے کسی معاملے کی بابت شکایت کرے تو صاف جواب ملتا ہے کہ اپنے لئیے گاڑی بک کر لیتے یا اپنی گاڑی رکھ لیتے۔ اس طنز سے بھرپور جواب کے ملنے کے بعد مسافر نے مزید کیا سننا ہے تو لہٰذا خود کو ڈرئیور اور گاڑی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے.  سڑک پر ڈرائیوروں نے یہ نہیں دیکھنا ہو تا ہے کہ سڑک یک رخی ہے یا دورخی،  کہاں آہستہ چلنا ہے، کہاں اورٹیک کرنا ہے، رفتار کیا رکھنا ہے، کہاں ہارن بجانا ہے، کہاں دوسرے گاڑیوں کو جگہ دینا ہے، اور کہاں لائیٹس دھیمی رکھنی ہیں۔ انہیں اگر دیکھنا ہے تو صرف یہ کہ ان کے لئیے کیا اچھا ہے، اپنے لئیے اچھے کی تلاش میں وہ کتنوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اس فکر سے آزاد ہیں ۔

کمال پورہ میں ذاتی گاڑی کا ہونا معاشرے میں آپ کے مقام میں بہتری کا ذرئعیہ سمجھا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ گاڑیاں خریدنے کے رجحاں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ گاڑیاں باسانی دستیاب ہیں۔ ایسی گاڑیاں جو دوسری جگہوں پر کافی مہنگی ہوتی ہیں اور عام طور پر غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں، کمال پورہ میں سستے داموں میسّر ہیں۔ ساتھ ہی اگر قانون کی فکر نہ ہو، تربیت یافتہ ہونے نہ ہونے سے متعلق کوئی پوچھ کچھ نہ ہو، گاڑی ٹھیک حالت میں رکھنے سے متعلق  کوئی ضابطہٗ عمل نہ ہو، ایسے میں گاڑی رکھنا نسبتاٌ آسان ہو جاتا ہے۔ گاڑیوں کی بہتات کے ساتھ ساتھ امدورفت کے لئیے موٹر سائیکلز کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ جن کے پاس گاڑیاں ہیں ان کے پاس موٹر سائیکلز بھی ہیں، اور جن کے پاس گاڑیاں نہیں ہیں ان کے پاس متبادل کے طور پر موٹر سائیکلز موجود ہیں، اور کچھ گھروں میں تو ان کے تعداد ایک سے زائد ہے۔ نوجوان اور خاص کر اٹھارہ سال سے کم عمر بچّے موٹر سائیکلز پر گھر سے باہر نکلتے ہی جیسے کسی ریس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کم عمری اور پھر آمدورفت کے اصول و ضوابط سے نا آشنا، تیزرفتاری کے سنگین نتائج سے انجان، گرم خون اور کھاوے کا جنون، جب موٹر سائیکلز لیکر روڈ پر نکلتے ہیں تو جیسے ان کو کچھ اور نظر نہیں آتا، کہیں ضرورت سے زیادہ اسپیڈ پکڑتے ہیں، کہیں ون ویلنگ کرتے ہیں، کہیں گنجان آمدورفت میں سے راستہ بناتے ہیں، کہیں پیدل چلنے والوں کے راستے پر چڑھتے ہیں، اور یوں نہ صرف اپنے لئیے خطرہ بنتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

 کمال پورہ میں پکّی سڑکیں کچّی سڑکوں سے زیادہ تکلیف دہ ہیں کیونکہ پکّی سڑکوں میں اتنی گڑھے اور دراڈیں پڑ چکی ہیں جن سے گزر کر اچھا خاصا ادمی بھی ہلکان ہو جاتا ہے۔ بنانے والے ان پکّی سڑکوں کو اس طرح بناتے ہیں کہ ان کو وقفے وقفے سے دوبارہ بنانے کی ضرورت پڑتی رہے تاکہ ان کا کام بھی چلتا رہے۔ سڑکوں کے آس پاس کے سارے ندّی نالوں کا پانی کے بہاوٗکا رخ سڑکوں کی طرف ہوتا ہے، اور ناقص یا ناکافی مٹیریل سے بنے عارضی پکّی سڑکیں ان ریلوں کی نذر ہو جاتی  ہیں، بارش اور سیلابی ریلے بھی اس نقصان میں اپنا حصّہ ڈالتے ہیں۔ سڑکوں پر جہاں جہاں پانی کی گزرگاہیں ہیں وہاں پر سڑک کے نیچے یا اوپر سے بہاو کے لئیے راستہ بنایا جاتا ہے اور اس میں بھی اس بات کا اہتمام موجود رہتا ہے کہ یہ کام سالانہ نہیں تو کم از کم ہر دوسرے یا تیسرے سال میں ضرور کرنا پڑے۔ سڑکوں پر جگہ جگہ دریاوٗں پر بنے پرانے اور نئے آر سی سی اور لکڑی کے پل اپنا کام کر رہے ہیں، تاہم کہنے والے کہتے ہیں کہ ان پلوں میں بھی خراب ہونے کے عمل کو مدّنظر رکھا جاتا ہے۔ کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بعض جگہوں پر پلوں کی تعمیر کے منصوبے بنے، بجٹ بھی مختص ہوا، ٹھیکے دئیے گئے، مگر پل ندارد۔ 

بہت سارے دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے کو بھی کوسا جا سکتا ہے۔
نشمن جل رہا ہے اور اف بھی کر نہیں سکتے 
اگر یہ مہربانی ہے تو پھر بیداد کیا ہوگی
 اسیرانِ قفس آدابِ کلشن ہی بھلا بیٹھے
جو یہ سچ ہے تو ان سے خاطرِصیاد کیا ہوگی
تغافل ہے مسلسل اک تغافل واہ کیا کہنا
قیامت اس سے بڑھ کر اے ستم ایجاد کیا ہو گی
(سیّد اشتیاق اظہر)

=====================================================================

No comments:

Post a Comment

ایک آرزو

  ایک آرزو   شیربازعلی خان   دینا میں بہتری کی یہ چھوٹی سی خواہش ملاحظہ ہو ہرایک کی ترجیح وہ پہلی ٹھرے، جو انسانیت کا معاملہ ہو  جہاں سے غر...