غربت
محرومئی دنیا ہے، محرومِ وسائل ہیں
غربت کے اندھیروں کے اپنے ہی مسائل ہیں
کہنے کو برابر ہیں دنیا میں سبھی انساں
پر بات عمل کی ہو، تفریق کے قائل ہیں
مفلس کے لیئے سختی، مجبوری و تنگ دستی
پھرمشقِ ستم ایسا کہ روح بھی گھائل ہیں
ہاتھوں کے لکیروں پر حسرت بھری نظروں سے
دیکھے چلے جاتے ہیں دکھ کتنے ہی نازل ہیں
کرتے ہیں سوال خود سے، جب ایک ہی ہے دنیا
کچھ کو ملے مال و زر، کچھ کیوں بنے سائل ہیں
جب ہو نہ غذا پوری، تو نشوونما کیسے
دنیا یہ سمجھتی ہے لاغر ہیں یہ کاہل ہیں
سہتے ہوئے غربت
وہ سب کچھ سہے جاتے ہیں
اک بارِگراں سامنے، وہ اس کے مقابل ہیں
ہر رخ کو زمانے میں انسان نے ہے موڑا
غربت کو ختم کرنا کیا کاوشِ باطل ہیں ؟
غربت سے نہیں بڑھ کر مسلہ کوئی دنیا میں
غربت نہ مٹے جب تک، سب دور کی منزل ہیں
گر چاند کو چھو آئے، حاصل بھی بتا اس کا ؟
مفلس کے دیئے جلتے، کیا کم یہ محاصل ہیں؟
No comments:
Post a Comment