ملاوٹ
از شیربازعلی
خان
یہی پہ رہتے ہیں اور اس جہاں کے ہوتے ہیں
شریک جرمِ ملاوٹ نہ کسی کہکشاں کے ہوتے ہیں
کمانا ان کو ہے، چاہے کسی بھی قیمت پر
ملے مواقعے زیادہ، وہاں کے ہوتے ہیں
پتہ ہے ان کو کہ وہ کھیلتے ہیں جاںوں سے
ستم ظریف، بڑے سخت جاں کے ہوتے ہیں
جو بچ کے رہتے ہیں قانون کے شکنجے سے
نہیں ہو ایسا اگر وہ کہاں کے ہوتے ہیں
جدیدیت میں بھی اپنی مثال آپ ہیں یہ
طریقِ واردت ایسے وہ جو وہم وگماں کے ہوتے ہیں
شکار ٹوٹ پھوٹ کا سڑکیں یونہی نہیں بنتیں
بجٹ ادھر کے بھی ان کی دوکاں کے ہوتے ہیں
نہ بچنےپایئں ہیں اشیائے خوردونوش بھی اب
جو کارِزیست نہیں، کارِزیاں کے ہوتے ہیں
دوائیوں میں بھی نقلی دوایئں شامل ہیں
نہ جانے کونسے ان میں وبالِ جاں کے ہوتے ہیں
بیماریاں بھی مرے دیس میں نئی آیئں
علاج بس میں کہاں ناتواں کے ہوتے ہیں
کسی کی جان کو خطرہ کہیں مرض لاحق
نتیجے اور بھیانک عنواں کے ہوتے ہیں
پھیلاتے زہر ہیں لیکن وہ لوگ نامعلوم
عقدہ کبھی کھلے تو وہ نام و نشاں کے ہوتے ہیں
کبھی رکے گا بھی یہ سلسلہٗ بے ہنگم ؟
گلوخلاصی کے دن کب یہاں کے ہوتے ہیں
======================================
No comments:
Post a Comment